Stay on this page and when the timer ends, click 'Continue' to proceed.

Continue in 17 seconds

غزہ جنگ پر بائیڈن نتن یاہو سے ناراض، 20؍ دن سے فون پر بات نہیں ہوئی

غزہ جنگ پر بائیڈن نتن یاہو سے ناراض، 20؍ دن سے فون پر بات نہیں ہوئی

Source: jang.com.pk

کراچی (نیوز ڈیسک) غزہ کی صورتحال کے حوالے سے امریکی حکومت کے مشورے اور درخواستیں مسترد کیے جانے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے مایوس ہو رہے ہیں، جبکہ یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ اسرائیلی کابینہ میں غزہ جنگ کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور کابینہ کے وزراء نے جنگ روکنے کیلئے ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق، 100؍ دن قبل، اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے امریکی صدر نے اسرائیل کو اپنی مکمل اور بھرپور حمایت فراہم کی، عسکری اور سفارتی سطح پر مدد کی۔ اگرچہ عوامی سطح پر یہ حمایت اور مدد اب بھی جاری ہے لیکن پس پردہ صورتحال دیکھیں تو ایسے اشارے مل رہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی صدر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ صورتحال سے واقف ایک امریکی عہدیدار نے امریکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ صورتحال خراب ہے اور ہم پھنس چکے ہیں، صدر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ دوسری جانب ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وان کا کہنا ہے کہ صورتحال کا جائزہ لیں تو ہر موقع پر اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی صدر کو ٹھینگا دکھا دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی حکام نتن یاہو کی حکومت میں شامل اتحادیوں سے رابطہ کرکے ان سے صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کیلئے التجا کر رہے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں منہ پر تھپڑ پڑ رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بائیڈن نے 23 دسمبر کو ایک تلخ ماحول میں ہونے والی فون کال کے بعد گزشتہ 20 روز سے نتن یاہو سے کوئی بات نہیں کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب یہ فون کال ختم ہو رہی تھی اس وقت بائیڈن کے آخری الفاظ یہ تھے: ''اب بات چیت ختم ہے۔'' جنگ شروع ہونے سے قبل دونوں رہنماؤں کے درمیان تقریباً ہر دو دن بعد بات چیت ہوا کرتی تھی۔ فون رکھنے سے قبل، نتن یاہو نے بائیڈن کی یہ درخواست مسترد کر دی کہ فلسطینیوں کے ٹیکس محصولات جاری کیے جائیں جو اسرائیل نے روک رکھے ہیں۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے بدھ کو صحافیوں سے بات چیت کے دوران بائیڈن اور نتن یاہو کے درمیان بات چیت کم ہونے کے معاملے کو زیادہ توجہ کا مرکز بننے نہیں دیا اور صحافیوں کی جانب سے سوال پوچھنے پر ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال سے کوئی خاص اشارہ یا تاثر نہیں ملتا۔ تاہم، کشیدگی اور پریشانی کے آثار ہر گزرتے دن کے ساتھ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ صورتحال بہت مایوس کن ہے۔دوسری جانب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ اسرائیلی کابینہ میں اس جنگ کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ وزیر دفاع یوو گیلنٹ پر وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ جھگڑے کے بعد کابینہ کا اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔ حماس کے خلاف جنگ کے معاملے پر دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وزیر دفاع تل ابیب میں کریا فوجی اڈے پر (وار روُم کابینہ) پہنچے تو انہیں وزیر اعظم آفس کے عہدیداروں نے بتایا کہ ان کے چیف آف اسٹاف شاچر کاتز کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ معاونین کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن اس صورتحال کے باوجود جب نتن یاہو خود پہنچے تو ان کے ساتھ ان کے پانچ معاونین ساتھ تھے۔ وزیر دفاع کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جنرل گے مارکیزانو کو شرکت کی اجازت دی گئی لیکن لیکن وزیر دفاع نے صورتحال قبول کرنے سے انکار کر دیا اور نتن یاہو اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر زاچی ہانیگبی کو غصے سے کہا کہ میرے کام میں مداخلت بند کرو، اس کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے۔ اس کے علاوہ 13؍ جنوری کو اسرائیلی کابینہ کا اجلاس ختم ہونے کے بعد، دو وزراء نے تل ابیب میں حکومت مخالف مظاہرے میں شرکت کی۔ مظاہرے میں شریک اسرائیلی وزیر بینی گانتز کی تصویر آن لائن نظر آئی جس میں گانتز کا کہنا تھا کہ اس سب کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ ہزاروں مظاہرین نے حماس کے زیر حراست قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اسرائیل میں امریکی سفیر جیک لیو اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی شرکت کی تھی جبکہ دیگر شرکاء میں حماس کی حراست میں موجود اسرائیلی (مغوی) افراد کے اہل خانہ شامل تھے۔